Orhan

Add To collaction

بھیگی پلکوں پر

کہنے کو کوئی اس سے میرا واسطہ نہیں
امجد مگر وہ شخص مجھے بھولتا نہیں
ڈرتا ہوں آنکھ کھولوں تو منظر بدل نہ جائے
میں جاگ تو رہا ہوں مگر جاگتا نہیں
وہ ایزی چیئر پر بیٹھا دھویں میں گم تھا اس کے ذہن کی اسکرین پر پری سے پہلی ملاقات کے مناظر چل رہے تھے ،اس نے اسے دیکھا اور دیکھتا رہ گیا تھا۔ مکر و فریب سے پربناوٹی و مصنوعی آرائش سے سجے ان چہروں میں وہ سادہ و پروقار چہرہ سب سے الگ تھا۔
کسی جھیل کی سطح پر خاموشی سے بہتا کوئی سفید گلاب جیسا چہرہ‘ ستاروں کے جھرمٹ میں بے تحاشہ دمکتا ایک ستارہ… پرستان سے راستہ بھول کر زمین پر آنے والی کوئی حسین پری ،اس جیسی ہی بے شمار تشبیہات اس کے ذہن میں آئی تھیں ،اس نے ہاتھ میں پکڑا کیمرہ اس کے چہرے کی طرف کر دیا تھا۔


پہلی بار گلاب سے اس نے شرارے پھوٹتے دیکھے تھے وہ اس کی تصویریں بنانے پر اس قدر برہم ہوئی تھی کہ اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کوئی لڑکی اس قدر روڈ انداز میں بھی اس سے مخاطب ہو سکتی ہے اور اسے خود پر حیرت تھی اس کی اتنی بے عزتی کے باوجود بھی وہ اس لڑکی کو بھلا نہ سکا بلکہ دل اس کی پہلی نگاہ کا ایسا اسیر ہوا کہ آج بھی وہ اس کی تمام بے رخی، یگانگی و بے اعتنائی کے باوجود بھی دل سے اس کے نقش کو مٹا نہ سکا تھا اور اب جب سے وہ طغرل کے نام کی انگوٹھی پہن چکی تھی وہ ایک آگ میں جلنے لگا تھا۔
”شیری! اوہ… اتنی اسموکنگ کیوں کر رہے ہو آپ؟“ مسز عابدی اس کے اردگرد دھواں دیکھ کر گھبرا کر گویا ہوئی تھیں۔
”آپ جائیں ممی! میں ہینڈ واش کرکے آتا ہوں۔“ اس نے واش روم میں آکر سگریٹ دور اچھالی اور نل کھولتے ہوئے واش بیسن پر جھک گیا تھا ،پندرہ منٹ بعد خوشبو میں مہکا وہ ان کے ساتھ بیٹھا۔
”رات بھر سوئے نہیں تھے ،کوئی ٹینشن ہے بیٹا!“ وہ اس کی طرف دیکھتی ہوئی گویا ہوئیں۔
”کیا ٹینشن ہو سکتی ہے بھلا مجھے ممی! میری اتنی فکر نہ کیا کریں۔“
”میڈ بتا رہی تھی عادلہ آئی تھیں گھر پر۔“ وہ ڈھیلے انداز میں بیٹھا تھا ،عادلہ کا نام سن کر سنبھل کر بیٹھ گیا۔
”جی… وہ آپ سے ملنے آئی تھی آپ نہیں ملیں تو وہ چلی گئی۔“ اس نے مسکرا کر بتاتے ہوئے بے پروائی کا مظاہرہ کیا تھا۔
”آپ سے ملاقات نہیں ہوئی عادلہ کی؟“
”بہت سرسری سی ہوئی تھی دراصل مجھے ایک ضروری میٹنگ کیلئے جانا تھا اس لئے میں رک نہیں سکا تھا چلا گیا تھا۔
“ اس نے بے حد اعتماد سے جھوٹ بولتے ہوئے انہیں کسی شک کا شکار نہ ہونے دیا تھا ،سادہ لوح مسز عابدی اس کی باتوں میں آسانی سے آ گئیں۔
”ڈنر پر آج شمع نے انوائٹ کیا ہے چلیں گے نا آپ؟“
”سوری ممی! مجھے دوستوں کے ساتھ مچھلی کے شکار پر جانا ہے ،میں آپ کے ساتھ نہیں جاؤں گا۔“ اس کے چہرے پر پراسراریت تھی۔
###
زینب کے گھر سے واپسی پر عائزہ بے حد خوش و مطمئن تھی۔
اللہ نے اس کی کوتاہیاں معاف کر دی تھیں اس کا ٹوٹتا گھر مضبوط ہو گیا تھا ،صباحت بھی بے حد خوش و مطمئن تھیں ایک کے بعد ایک پریشانی ختم ہو رہی تھی ،پہلے عادلہ کا معاملہ سلجھا تھا تو آج عائزہ کو منانے کیلئے فاخر چلا آیا تھا۔ فیاض نے بھی ان کے ساتھ اپنے رویئے میں تبدیلی کر لی تھی، محبت سے پیش آنے لگے تھے اور یہ سب پروردگار کی کرم نوازی تھی انہوں نے صدق دل سے اپنی غلطیوں کی معافی مانگی تھی اور ستر ماؤں سے زیادہ چاہنے والے رب نے اپنی رحمت کی بارش برسانی شروع کر دی تھی۔
”فاخر اسی ہفتے جانا چاہتا ہے تم اپنی تیاری شروع کر دو ،جو چاہئے وہ کل شاپنگ کر لینا ،میں نے کل ڈنر پر سب کو انوائٹ کرنے کا سوچا ہے۔ آصفہ عامرہ کے علاوہ شیری کو بھی کل خصوصی طور پر بلائیں گے ،سب لوگ واقف ہیں اس سے محض سرسری طور پر اب سب سے ملواؤں گی ان کو۔“ انہوں نے خوشی سے سرشار لہجے میں پروگرام بنایا تھا۔
”جو آپ مناسب سمجھیں ممی!“ وہ مسکرا کر بولی۔
گھر آنے تک وہ دعوت کا مینیو سیٹ کر چکی تھیں اسی پر بات کرتی وہ اندر داخل ہوئی تھی جب عائزہ کی نگاہ بے ہوش پڑی عادلہ پر پڑی تھی وہ دوڑ کر اس کی طرف بڑھی تھی۔
”عادلہ… عادلہ…“ وہ اس کے چہرے کو تھپتپھاتی ہوئی بولی۔
”ارے کیا ہوا میری بچی کو؟ یہ اس طرح کیوں پڑی ہے؟“ صباحت اسے بے سدھ دیکھ کر چیختے ہوئے قریب بیٹھ گئی تھیں ان کی آواز سن کر پری بھی وہاں آ گئی تھی وہ تینوں مل کر اسے ہوش میں لانے کی تدبیریں کرنے لگیں مگر وہ ہنوز اسی حالت میں تھی۔
”ڈاکٹر کو کال کرکے بلاتی ہوں۔“ وہ اور عائزہ اٹھا کر اسے کمرے میں لائی تھیں ،پری نے فون اسٹینڈ کی طرف بڑھتے ہوئے کہا۔
”شاید سیڑھیاں چڑھتے ہوئے گر گئی ہے۔“ عائزہ نے اندازاً کہا۔
”کیسے گر گئی… ہم تو اس کو بالکل ٹھیک چھوڑ کر گئے تھے۔“
”ممی! آپ فکر مند نہ ہوں ،کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے ،پاؤں سلپ ہونے سے گر گئی ہو گی۔
آپ کو معلوم ہے ہلکی سی چوٹ بھی اسے برداشت نہیں ہوتی،تکلیف سے بے ہوش ہو گئی ہو گی۔“
###
”اٹس ویری آمیزنگ مما! نہ آپ نے مجھے شرمندہ کیا نہ ڈیڈ نے کوئی ایسی بات کی ،بناء سوچے سمجھے ہی آپ نے مجھے معاف کر دیا ہے؟“ سعود سر جھکائے ان کے سامنے بیٹھا تھا۔
”اولاد کو شرمندہ دیکھ کر کبھی والدین خوش نہیں ہوتے بیٹا! ہمارے لئے یہ ہی سب سے خوشی کی بات ہے کہ آپ پلٹ کر واپس آ گئے ہیں۔
”میں اتنے عرصے سے آپ لوگوں سے اسی لئے چھپتا رہا کہ کس طرح فیس کر پاؤں گا؟ میں نے آپ لوگوں کو بے حد ڈس ہارٹ کیا ہے ،پہلے مجھے ان تمام جذبوں کا ادراک نہیں تھا ،دکھ کیا ہوتا ہے؟ غم کس طرح زندگی کو بوجھل کر دیتا ہے یہ سارے احساسات پوجا کے چھوڑ کر جانے کے بعد ہوئے ہیں اور پھر مجھے معلوم ہوا۔ میں نے آپ لوگوں کو کتنے دکھ دیئے ہیں جب اپنے ہی اپنوں سے محبت نہ کریں تو رشتوں کا بھرم ٹوٹ جاتا ہے۔
”ہم یہ بھرم کبھی نہیں ٹوٹنے دیں گے بیٹا! جو ہوتا ہے اچھے کیلئے ہوتا ہے ،آپ واپس آ گئے ہیں اس سے بڑھ کر ہمارے لئے کوئی خوشی کی بات نہیں ہے۔“ صفدر جمال کی بات کی تائید عشرت جہاں اور مثنیٰ نے بھی کی تھی۔
###
اس نے آہستہ آہستہ آنکھیں کھولی تھیں۔ ممی اور دادی اس کے قریب بیٹھی تھیں عائزہ اور پری کھڑی اسے دیکھ رہی تھیں اس کی نگاہیں پری کے چہرے پر جم گئیں۔
یک ٹک وہ اسے دیکھے گئی۔
”تمہیں پری کو میرے پاس لانا ہے ،آج رات کو۔ لاؤ گی نہ بولو؟“ کوئی بھیڑیا نما غراہٹ اس کی سماعتوں میں گونجی تھی۔
”اگر تم نے مجھے دھوکا دیا یا چھپنے کی کوشش کی تو جانتی ہو نا میں تمہارا کیا حال کروں گا؟ تم اور تمہاری فیملی کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے گی۔“ وہ اس سے کچھ پوچھ رہی تھیں مگر اس کی سماعتوں میں شیری کی دھمکیاں گونج رہی تھیں۔
”عادلہ! کچھ تو بولو بیٹا! کیا ہوا تھا؟ کیا تم سیڑھیوں سے گری ہو؟“ اس نے کرب سے آنکھیں بند کر لیں ،کیا بتاتی کہاں سے گری ہے یا شیری نے ایسے پاتال میں گرا دیا ہے کہ وہ کچھ بولنے کے بھی قابل نہیں رہی ہے۔
”گھبراؤ نہیں صباحت! ڈاکٹر نیند اور درد کا انجکشن لگا کر گیا ہے اسی وجہ سے یہ ابھی غنودگی میں ہے ،غنودگی سے باہر آئے گی تو ٹھیک ہو گی۔
میں نماز پڑھنے جا رہی ہوں، خاصا وقت ہو گیا ہے۔“ دادی کی آواز اس نے واضح سنی تھی مگر آنکھیں کھولنے کی ہمت پھر بھی نہ کرسکی شاید پین کلر کی وجہ سے درد کی شدت میں خاصی کمی تھی لیکن جسم میں شدید ایٹھن تھی جوڑ جوڑ جکڑا ہوا تھا۔
”سوپ پکنے کیلئے رکھ کر آتی ہوں۔“ صباحت اٹھتے ہوئے بولیں۔
”میں چکن چولہے پر رکھ کر آئی تھی ممی ،تیار کرکے لاتی ہوں۔
“ وہ دروازے کی طرف بڑھتے ہوئے بولی۔
”خوش رہو ،تمہیں سب کا کتنا خیال رہتا ہے پری!“ انہوں نے کانپتا ہوا ہاتھ اس کے سر پر رکھا تھا پری نے حیرانی سے ان کی طرف دیکھا۔ غصہ ،طنز ،نفرت و حقارت ایسا کوئی تاثر ان کے چہرے پر نہیں تھا۔ ان کی آنکھوں میں ہلکی نمی تھی چہرے پر شفقت وہ شاکڈ رہ گئی ان کا یہ روپ اس کیلئے بالکل نیا تھا۔
پری کی حیرانگی ان کے ضمیر پر ایک اور تازیانہ بن کر لگی تھی ،نمی آنسو بن کر بہنے کو تیار تھی وہ تیزی سے وہاں سے نکل گئی تھی۔
”یہ ممی کو کیا ہوا تھا عائزہ! انہوں نے مجھ سے اتنے پیار سے بات کی ،اتنی محبت سے میرے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا۔“ وہ خواب کی سی کیفیت میں چلتی ہوئی اس کے قریب آ کر بولی۔
”یہ سب حقیقت ہی ہے نا؟ میں کوئی خواب تو نہیں دیکھ رہی؟“
”یہ حقیقت ہے پری! دراصل ممی تم سے کئی دنوں سے معافی مانگنا چاہ رہی تھیں مگر تم سے ممی نے اتنی زیادتیاں کی ہیں کہ وہ ہمت نہیں کر پا رہی ہیں تمہارا سامنا کرنے کی آج…“
”معافی کیسی ،کوئی ماں اپنی بیٹی سے ایسی بات کرتی اچھی لگیں گی؟“
”ممی نے جو تمہارے ساتھ کیا وہ برتاؤ کسی ماں کو سوٹ نہیں کرتا ،پری ماں صرف ماں ہوتی ہے پہلی دوسری کی تفریق فضول ہے۔
”تم ممی کو بالکل منع کر دو عائزہ! وہ ایسا کچھ نہ کریں میرے دل میں ان کی طرف سے کوئی شکایت نہیں ہے۔“ وہ کہہ کر چلی گئی وہ خاصی خوش و جذباتی ہو رہی تھی عائزہ نے پیار بھری نظروں سے اسے جاتے ہوئے دیکھا اور پھر عادلہ کی طرف متوجہ ہو گئی تھی۔
”عادلہ! آنکھیں کھولو مجھے معلوم ہے تم جاگ رہی ہو ،ہوا کیا ہے تمہارے ساتھ،ہم تمہیں صحیح سلامت یہاں چھوڑ کر گئے تھے۔
”میں سیڑھیوں سے گر گئی ہوں ،نامعلوم کیا ہوا تھا مجھے ،میں نے خود کو سنبھالنے کی بے حد کوشش کی اور پھر بھی گرتی چلی گئی تھی۔“
”لیکن سیڑھیوں سے گرنے سے اتنی شدید چوٹیں نہیں لگتی۔“ وہ کھوجتی نگاہوں سے اس کی طرف دیکھ رہی تھی اور عادلہ کا دل چاہا وہ اس سے لپٹ جائے دل پر گرنے والا ہر آنسو اس کے شانے سے لگ کر بہا دے ،ایک ایک زخم اسے دکھائے اور کہے کہ اس وحشی سے اس کو بچا لے۔
وہ اس کی خواہش پوری کرنے سے قاصر ہے ،وہ اس کی زندگی تو برباد کر چکا تھا اب پری کو تباہ کرنے کے در پے تھا مگر پھر وہ ہی خوف…
”عائزہ! ماربل کی سیڑھیاں ہیں پھر میں بہت بری طرح گری ہوں ،مجھے تو لگ رہا تھا میری ساری ہڈیاں ٹوٹ کر بکھر جائیں گی۔“
”شکر ہے ایسا کچھ نہیں ہوا ہے لیکن تمہارا چہرہ بتا رہا ہے درد بہت زیادہ ہے،سوپ پینے کے بعد میڈیسن اور لے لینا۔“

   1
0 Comments